اسلام آباد7دسمبر(ایس او نیوز آئی این ایس انڈیا)تحریکِ انصاف کے وکیل نعیم بخاری نے کمیشن کے قیام پرمشورے کے لیے ایک روز کی مہلت مانگی جو منظور کر لی گئی۔پاکستان کی سپریم کورٹ نے پانامالیکس کے مقدمے میں پاکستان تحریک انصاف کی استدعا پر تحقیقاتی کمیشن کی تشکیل پرمشاورت کے لیے وقت دیتے ہوئے سماعت نو دسمبر تک ملتوی کر دی ہے۔چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی بینچ نے بدھ کو وزیرِ اعظم کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران ریمارکس میں کہا کہ الزام لگانے والی پارٹی اور جس پر الزام لگایا گیا ہے دونوں نے جو دستاویزات عدالت میں جمع کرائی ہیں وہ کوئی بھی فیصلہ دینے کے لیے ناکافی ہیں، لہٰذا اِس معاملے کی تحقیق کے لیے کیوں نہ کمیشن بنا دیا جائے۔اِس پر جماعت اسلامی کے وکیل نے کہا کہ تحریکِ انصاف کے علاوہ دیگر تمام درخواست گزار کمیشن کے قیام پر راضی ہیں۔تحریکِ انصاف کے وکیل نعیم بخاری نے کمیشن کے قیام پر مشورے کے لیے ایک روز کی مہلت مانگی جو منظور کر لی گئی۔بدھ کے روز جب سماعت کاآغازہواتووزیرِاعظم نواز شریف کے وکیل سلمان اسلم بٹ نے گذشتہ روز عدالت کی جانب سے کیے جانے والے سوالات کے جوابات کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے 2011میں لاہور میں خریدی جانے والی زرعی زمین کی مالیت عدالت کوفراہم کی۔اس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ پہلے آپ نے رقم ادا کی اور اُسے تحفہ ظاہر کرتے ہوئے اپنے ٹیکس میں دکھایا۔ اگلے سال وہ واپس کر دی گئی اور اُسے ادا کرنے والے نے اپنے گوشوارے میں دکھا دیا جو کہ عام طور پر ٹیکس ریٹرن جمع کرانے کے معاملات میں ہوتا ہے۔ یہ آپ کو بھی پتا ہے کہ کیا ہوا اور ہمیں بھی پتا ہے۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے مریم نواز کی کفالت سے متعلق استفسار کیا کہ مریم نواز کے اخراجات کہاں سے پورے ہوتے اور کیسے پورے ہوتے ہیں، کیونکہ ٹیکس گوشوارے کے مطابق مریم نواز کی قابلِ ٹیکس آمدنی صفر ہے۔وزیرِ اعظم کے وکیل نے عدالت سے سوال کیا کہ اگر کوئی باپ اپنی بیٹی کو گھر میں رہنے کی اجازت دے تو کیا وہ اُس کی زیرِ کفالت قرار دی جائے گی؟۔ اِس پر عدالت نے کہا کہ ایسا ضروری نہیں ہے اگر مریم نواز کی باقاعدہ زرعی زمین سے آمدنی ہے تو پھر والد کے تحفوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔سلمان اسلم بٹ نے کہا تو جب وہ زیرِ کفالت نہیں ہیں تو وزیر اعظم کو اُن کے تمام اثاثے ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اُن کے اثاثے کیپٹن صفدر نے اپنی اہلیہ کے طور پر ظاہر کیے ہیں جن پر مقدمہ ماتحت عدالت اور الیکشن کمیشن میں زیرِ سماعت ہے۔ اِس پر چیف جسٹس نے حکم دیا کہ ان سماعتوں کی کاپیاں فراہم کی جائیں۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے سلمان اسلم بٹ سے کہا کہ مریم نواز کے زیرِ کفالت ہونے کے معاملے میں اُن کے دلائل نکتہ حل نہیں کر پائے ہیں۔
وزیرِ اعظم کے وکیل نے عدالت کی جانب سے گذشتہ روز اُٹھائے جانے والے تیسرے سوال کے جواب میں کہا کہ وزیر اعظم کی 22 اپریل 2016 کی تقریر کے تین حصے تھے جن میں دبئی، جدہ اور برطانیہ کا ذکر تھا۔ اِس پر عدالت نے کہا اُس میں قطر کا کوئی تذکرہ نہیں تھا۔ سلمان بٹ نے دلیل کے طور پر کہا کہ یہ ٹرائل کورٹ نہیں ہے جس پر عدالت نے کہا کہ معاملے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے ہمیں یہ سب کرنا پڑ رہا ہے۔ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں سارے معاملے میں بزنس اور پیسے دادا سے پوتی اور پوتوں کو منتقل ہوئے اور اِس میں آپ کے موکل کا کوئی ہاتھ نہیں تھا؟۔سلمان اسلم بٹ نے اپنے دلائل مکمل کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ 1980 کی دہائی میں کیے جانے والے مالی معاملات کے دستاویزات لاہور ہائی کورٹ نے سیل کیے ہوئے ہیں اِس لیے جتنے دستاویز وزیرِ اعظم کے پاس موجود ہیں عدالت میں پیش کر دیے گئے ہیں۔سلمان اسلم بٹ کے دلائل سننے کے بعد عدالتِ عظمیٰ نے تمام فریقوں کو کیس کے فیصلے کے لیے کمیشن کی تشکیل کے حوالے سے مشاورت کرنے کا وقت فراہم کیا۔پاکستان تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری کی جانب سے مشاورت کے لیے وقت کے تقاضے پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہماری طرف سے کوئی دباؤ نہیں، آرام سے مشورہ کریں، جس کے بعد عدالت نے کیس کی سماعت نو نومبر تک ملتوی کردی۔تحریکِ انصاف کے وکیل نعیم بخاری نے عدالت سے سوال کیا کہ اگر کمیشن بنا تو اُس کے ضوابط کار کیا ہوں گے؟ اِس پر چیف جسٹس آف پاکستان نے پاناما لیکس کو تحقیقاتی اداروں کی ناکامی قرار دیتے ہوئے کہا کہ کمیشن تحریک انصاف کے الزامات پر بنایا جائے گا اور دونوں فریقین کو پورا موقع دیا جائے گا۔ کمیشن کو تمام اداروں کی معاونت اور کسی سے بھی تفتیش کا اختیار بھی حاصل ہو گا اور اس کی رپورٹ لارجر بینچ کے سامنے ہی پیش کی جائے گی۔وزیرِ اعظم کے وکیل نے عدالت کی جانب سے گذشتہ روز اُٹھائے جانے والے تیسرے سوال کے جواب میں کہا کہ وزیر اعظم کی 22 اپریل 2016 کی تقریر کے تین حصے تھے جن میں دبئی، جدہ اور برطانیہ کا ذکر تھا۔ اِس پر عدالت نے کہا اُس میں قطر کا کوئی تذکرہ نہیں تھا۔سلمان اسلم بٹ کا کہنا تھا کہ میاں محمد شریف اپنے خاندان کے معاملات اپنی گرفت میں رکھنے والے شخص تھے۔ اُن کے کاموں میں دخل اندازی نہیں کی جا سکتی تھی اور جب یہ سارے مالی معاملات ہوئے اُس وقت خاصہ کام نقد کی صورت میں ہوتا تھا اِس لیے دستاویزی ثبوت نہیں ہیں۔اِس پر عدالت نے ریمارکس میں کہا کہ ذہن میں رکھیں کہ وہ منتخب وزیرِ اعظم ہیں،وہ ہمارے بھی وزیرِ اعظم ہیں لیکن اِس مقدمے میں اُن کو وضاحت کرنی ہوگی۔ جو ہم نے راجہ پرویز اشرف کے مقدمے میں کہا تھا دہراتے ہیں کہ وہ جب تک جرم ثابت نہیں ہوتا وہ بطور وزیرِ اعظم تعزیم کے حقدار ہیں لیکن ہم سوال پوچھتے رہیں گے۔ ایسا لگتا ہے کہ میڈیا کے پاس اِس کیس کے علاوہ کچھ ہے ہی نہیں۔